حضرت سید خواجہ خاوند محمود المعروف حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ
- Admin
- Sep 06, 2022
آپؒ کا اصل نام خاوند محمود تھا لیکن آپؒ کو جامع کمال اور صاحب حال وقار ہونے کی وجہ سے حضرت ایشاں کہا جا تا تھا۔ آج بھی آپؒ تاریخ میں اپنے اصل نام کی بجاۓ اس نام سے مشہور ہیں ۔’ آس شان‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں : ”وہ شان یعنی بڑی شان والا ۔ جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام کو اکثر مقامات پر آں حضرت کے خطاب سے مزین کیا جاتا ہے اسی طرح آپؒ کے عقیدت مند اور مر ید آپؒ کو ادب و احترام کے لحاظ سے حضرت ایشاں‘ کے نام گرامی سے پکارتے ہیں۔
آپؒ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے ہم عصر ہیں ۔ آپؒ کے والد میر سید شریف بن خواجہ ضیاء بن خواجہ میر محمد دین تاج الدین حسین بن خواجہ علاؤ الدین عطار شہنشاہ نقشبند حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہم کے داماد اور خلیفہ تھے ۔ حضرت ایشاں نے لاہور میں نقشبندی سلسلہ کی ایک زبردست خانقاہ کی بنیاد رکھی۔ یہ خانقاہ آج بھی آپؒ کے مزار کے ساتھ بیگم پورہ نزد باغبانپورہ کے قریب ایک بہت ہی وسیع جگہ اور بلند و بالا روضہ کے ساتھ واقع ہے۔ آپؒ کے صاحبزادے نے اس خانقاہ کی رونق کو برقرار رکھا۔ پھر آپؒ کے خلفا ء خاص ملا میر جاہ کا بلی اور محمد آغا کا بلی نے نقشبندی فیضان کو عام کرنے میں بڑا حصہ لیا۔ آپؒ نے لاہور میں سلسلہ نقشبند یہ کوفروغ دیا تو مغل شہزادیاں سلطانہ سلیم بیگم ( بابر کی نواسی ) اور گل رخ بیگم (بابر کی بیٹی ) نے نہایت عقیدت سے بیعت حاصل کی اور یوں شاہی خاندان کی مستورات میں سلسلہ نقشبندیہ کو پھیلایا۔ شاہی خاندان کے اکثر امراء سلطان خسرو، مرزا عزیز کو کہ، خانِ اعظم جیسے امراء آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپؒ کی وفات 4 نومبر 12/1646 شعبان 1052ھ بعہد شاہجہان لا ہور میں ہوئی۔
حضرت خواجہ سید خاوند محمود المعروف به حضرت ایشاں 965ھ کو بخارا میں پیدا ہوۓ ۔ خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ کے خلیفہ اویسی تھے ۔ خواجہ ابواسحاق سفیدکی سے بیعت ہوۓ ۔ ابتدائی تعلیم دینیہ بخارا میں حاصل کی ۔ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی ۔ دوران سفر کشمیر جنت نظیر تشریف لاۓ تو مغل شہنشاہوں نے اکتساب فیض کیا۔ آپؒ دہلی ، لاہور اور آگرہ میں اکبری امراء کو دعوت رشد و ہدایت دیتے ۔ شیعہ رافضی آپؒ سے بڑے ہراساں تھے۔ کشمیر میں تدریس علوم اسلامیہ کا مرکز قائم کیا۔ امراء مغلیہ کی تحریک پر لاہور تشریف لاۓ اور یہاں تبلیغ و تدریس کا کام شروع کیا۔
حضرت ایشاںؒ بڑے عابد، زاہد، متقی ، ولی اور قطب وقت تھے، اور بزرگ ایسے تھے کہ اپنے وقت میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپؒ نے مدرسہ سلطانی بخارا میں علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی اور ایسے طاق ہوۓ کہ یگانہ آفاق ہوۓ ۔ علماء میں آپؒ کا فتوی مشہور تھا۔ دور دور آپؒ کا شہرہ کرامت تھا ۔ بادشاہ بخارا آپؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر سرفراز ہوتا تھا۔
ہنوز بارہ برس کی عمر میں پہنچے تھے کہ آپؒ نے قرآن مجید حفظ کیا اور چودہ برس کی عمر میں آپؒ کل علوم کے حافظ ہو گئے ۔ علمائے عہد سے کسی کو طاقت تھی کہ ان کے سامنے علمیت کا دم مارے۔ آخر چندے وہاں رہ کر بہت لوگوں کو اپنی ارادت سے مستفید کیا۔ وہاں کا حاکم شاہ زمان مرزا آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی ۔ وہاں سے آپؒ ہرات آۓ اور ہرات سے قندھار اور قندھار سے کابل تشریف لائے ۔ ان شہروں میں ہزاراں ہزار مریدان ارادت مند آپؒ کی بیعت سے سرفراز ہو کر کمال کو پہنچے اور صاحب خوارق و کرامت ہوۓ ....... غرض کہ دو سال تک حضرت وہیں رہے اور اپنے خلفا ء ملک روم و شام و عراق و کوہ نور کی طرف مامور کیے ۔ وہاں سے خطہ دلپذ یر کشمیر کا عزم ہوا اور پہاڑ کے راستہ سے کشمیر پہنچے.. لوگ جوق در جوق آ کر مرید ہوۓ۔
کشمیر سے آپؒ لاہور تشریف لائے جہاں آپؒ کا روضہ مطہرہ ہے ۔ حضرت کا باغ اور خانقاہ تعمیر ہورہی تھی ، یہاں تشریف لا کر آپؒ سکونت پذیر ہوئے لاہور میں آنے کے بعد نو برس تک حضرت تشریف فرما ر ہے ۔ اس اثناء میں بہت لوگ فیض یاب ارادت ہو گر سعادت دنیا و آخرت سے بہرہ یاب ہوۓ۔
حضرت ایشاںؒ کے جب ایام وفات نزدیک پہنچے تو رحلت سے پندرہ روز قبل بعدنماز عصر اپنے مرید نواب افتخار خان عالی جاہ سے فرمایا:
پندرہ روز کے بعد دار البقاء کو رحلت ہوگی۔ جب سولہواں روز ہوا تو بروز شنبہ نماز مغرب کے بعد چند بار آپ نے مولانا جامی کایہ شعر پڑھا:
الٰہی! غنچه امید بہ کشا
گلی از روضه جاوید نما
اور عشاء سے پہلے سجدہ ریز ہوۓ اور جان عزیز جان آفرین کے سپرد کی۔ نعش مبارک کو جب غسل کے لیے تختہ صندلین پر دراز کیا تو قضارا تہہ بند کی گرہ ڈھیلی ہو گئی اور قریب تھا کہ کھل جاۓ۔ غسال اس سے غافل تھا مگر خواجہ نے دونوں ہاتھ بڑھا کر تہہ بند کی گرہ کو مضبوطی سے پکڑا اور کشف عورت نہ ہونے دیا۔ یہ حال دیکھ کر سب حاضرین نے اقرار کیا ہے:
”اللہ کے ولی نہیں مرتے۔
شاہجہان بادشاہ کی طرف سے جو اس وقت لاہور میں تھا میراں سید جلال الدین صدر الصدور آپؒ کی تجہیز وتکفین کے اہتمام کے لیے حاضر ہوۓ ۔ حضرت ایشاں کی نعش کو لحد میں رکھنے کے بعد زیارت کے لیے روۓ مبارک سے پردہ کشن اٹھایا تو دیکھا کہ لب ہاۓ مبارک جنبش میں ہیں، گویا کچھ پڑھ رہے ہیں ۔ تدفین کے بعد نواب سعید خان نے مزار پر انوار پر گنبد عالی تعمیر کرایا۔
حضرت ایشاں کے کچھ فرزند تھے۔
1 اول خواجہ تاج الدین خاوند :
کہ جامع علم وعمل و حال وقال تھے ، اور تمام عمر گناہ کبیرہ کے مرتکب نہ ہوۓ ۔ جو پدر بزرگوار کے بعد سجادہ مشیخت پر بیٹھے اور ولایت میں مقامات بلند کے مالک تھے۔
(2) دوسرے خواجہ خاوند احمد(3) تیسرے خواجہ خاوند محمد : (4) خواجہ معین الدین احمد خاوند :
جامع کتاب رضوانی‘ جو علوم حدیث وتفسیر میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے شاگر داور طریقت میں اپنے والد بزرگوار سے فیض یاب تھے ۔
( غلام سرور لاہوری ملتی خزینۃ الاصفياء مطبوها و ۱۹۱۳)
(5) پانچو میں خواجہ خاوند قاسم:
(6) چھٹے خواجہ بہاؤ الدین خاوند: جو والد بزرگوار کی وفات کے بعد منصب شاہی کو ترک کر کے مزار پر انوار کے مجاور ہو گئے اور تاحیات مجاوری مزار پر حاضر ر ہے۔
آپؒ کے سولہ خلیفہ ہیں جو بعد تربیت و تحمیل مختلف اقالیم دور دراز پر ہدایت خلق کے لیے حسب الارشاد مامور ہوۓ:
(1) فرزند خواجہ خاوند احمد (2) خواجہ عبدالرحیم نقشبند : جو خواجہ حسن عطار بن علاؤ الدین عطار کی اولاد سےتھے۔
(3) خواجہ سید ی: جو شاہ شجاع کرمانی کی اولاد سے تھے۔
(4) خواجہ محمد امین وحیدی
(5) خواجہ عبدالعزیز وحیدی
(6) خواجه ترسون المشهور به خواجہ باقی (7) خواجہ شادمان کابلی
(8) مرزا باشم : برادر خواجہ دیا نہ بنی جو بیان قلی خان بادشاہ بلخ کے پیر تھے۔
(9) خواجہ لطیف درخشی(10) خواجہ ابوالحسن سمرقندی
(11) مرزا ابراہیم برادر میر نعمان جو شخ احمد مجددالف ثانی کے اعاظم خلفاء سے تھے ۔
(12) خواجه باندی کشمیری (13) خواجہ حاجی طوسی (14) حاجی ضیاء الدین
(15) مولا تا پائندہ حارثی (16) خواجہ معین الدین احمد خاوند : فرزند دلبند حضرت ایشان مؤلف کتاب رضوانی۔رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
آپؒ کا مزار پر انوارحضرت ایشاں لاہور سے مشرقی جانب شالا مار باغ کے متصل واقع ہے۔
گنبد مزار کے اندر چبوترے پر تین قبر میں ہیں ۔ پہلی قبر حضرت ایشاںؒ کی ہے، دوسری قبر حضرت میر جان نقشبندیؒ کی ہے اور تیسری قبر ان کے چھوٹے بھائی سید محمود آغاؒ کی ہے۔اسی گنبد کے جنوب مشرقی کونے میں حضرت ایشاںؒ کے صاحبزادے خواجہ بہاؤ الدینؒ کی قبر ہے۔مزار کے غرب رویہ ایک مسجد ہے جو قدیم زمانہ کی بنی ہوئی ہے۔